1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہناروے

سوشل میڈیا تک رسائی انسانی حق قرار دیا جائے، ایک جنسی مجرم

5 مئی 2024

ناروے میں جنسی ہراسانی کے ایک مجرم نے ملکی سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک رسائی کو ایک انسانی حق قرار دے۔

https://p.dw.com/p/4fR9c
Weltzeit | Snapchat
تصویر: Unsplash Souvik Banarjee

ناروے کی سپریم کورٹ کے سامنے آج جمعرات دو مئی کو پیش ہونے والا کیس ایک ایسے شخص کی طرف سے داخل کرایا گیا ہے، جس نے ایک کم عمر کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا اور نوعمر لڑکوں کے ساتھ رابطوں کے لیے سنیپ چیٹ میسجنگ کا استعمال کیا۔ اس شخص کو جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی، گزشتہ برس 13 ماہ جیل کی سزا سنائی گئی اور ساتھ ہی دو برس کے لیے سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی بھی عائد کی گئی۔

سوشل میڈیا کا بھوت اور بچوں کی ذہنی صحت

بچوں کا تحفظ: یورپی یونین کی ٹک ٹاک کے خلاف کارروائی شروع

اس شخص کے وکیل کا مؤقف تھا کہ اس شخص کو اپنا اکاؤنٹ استعمال سے روکنا انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے تحت غیر قانونی ہے۔

وکیل دفاع جان کرسٹیان ایلڈن کے بقول، ''اس کیس میں ایسے اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ ریاست سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے استعمال پر کس حد تک پابندی عائد عائد کر سکتی ہے، جو آزادی اظہار کے حق کے استعمال کے لیے اہم ذرائع ہیں تاکہ سماجی رابطے بحال رکھے جا سکیں۔‘‘

اسیپ چیٹ ایپ
درخواست گزار کے وکیل کا مؤقف تھا کہ اس شخص کو اپنا اکاؤنٹ استعمال سے روکنا انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے تحت غیر قانونی ہے۔تصویر: Jens Kalaene/dpa/picture alliance

نومبر 2023ء میں اس پابندی کے خلاف دائر کی جانے والی اپیل میں ریاست کی طرف سے کامیابی کے ساتھ یہ دلیل دی گئی تھی کہ اس شخص پر پابندی ''اس حقیقت کے مطابق عائد کی گئی تھی کہ اس نے بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے لیے سنیپ چیٹ کا استعمال کیا تھا۔‘‘

اپیل کورٹ نے تاہم فیصلہ دیا کہ اس شخص کو پھر بھی اس بات کا حق حاصل ہے کہ دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس استعمال کرے۔ اگر ناروے کی سپریم کورٹ اسی فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو پھر یہ شخص یورپی یونین کی انسانی حقوق کی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔

یورپی کنونشن کی حدود کے حوالے سے ناورے کی عدالت میں پہلے بھی ایک کیس پیش ہو چکا ہے جب آندریاس بیہرنگ بریوک کی ایک اپیل کو رد کر دیا گیا تھا جس میں اس کا مؤقف تھا کہ جیل کی سزا کے دوران اسے الگ تھلگ رکھنا کنونش کے تحت غیر انسانی عمل ہے۔ خیال رہے کہ بریوک نے 2011ء میں فائرنگ کر کے 77 افراد کو قتل کر دیا تھا۔

آندریاس بیہرنگ بریوک عدالت میں پیشی کا منظر
یورپی کنونشن کی حدود کے حوالے سے ناورے کی عدالت میں پہلے بھی ایک کیس پیش ہو چکا ہے جب آندریاس بیہرنگ بریوک کی ایک اپیل کو رد کر دیا گیا تھا جس میں اس کا مؤقف تھا کہ جیل کی سزا کے دوران اسے الگ تھلگ رکھنا کنونش کے تحت غیر انسانی عمل ہے۔تصویر: Ole Berg-Rusten/AP/picture alliance

'یورپیئن کنونشن آن ہیومن رائٹس‘ پر دستخط کرنے والی ریاستوں نے شہریوں کی جان، آزادی اور آزادی اظہار کو یقینی بنانے کے لیے اس کے 18 آرٹیکلز پر عملدرآمد یقینی بنانے پر اتفاق کیا تھا۔ ناروے 1952ء میں اس کنونشن پر دستخط کرنے والا دوسرا ملک تھا۔ پہلا ملک برطانیہ تھا۔

جنسی ہراسانی کے مجرم کی طرف سے ناروے کی سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے کیس پر فیصلہ آئندہ ہفتوں کے دوران سنایا جائے گا۔

ا ب ا/ا ا (ایسوسی ایٹڈ پریس)